جمعرات، 23 جولائی، 2020

China Iran Relations;"A disturbance for Indian & American's interest"


ایران،چین تعلقات۔نئی امیدیں،نئے خدشات

سجاد وریاہ۔۔۔۔۔۔۔گمان

China Iran Relationship
"China Iran Relationship"
Image Courtesy: merics.org

(آج کا بلاگ چین اور ایران بڑھتی قربتوں اور نئے تجارتی اور معاشی تعلقات کے حوالے سے ہے۔اس بلاگ میں اس اتحاد کے فوائد اور خدشات کے حوالے سے تجزیہ کیا گیا ہے،ممکنات اور نا ممکنات پر بات کی گئی ہے۔ملاحظہ فرمائیں)

پس منظر

ایران اور چین کی قربتوں اور تعاون کی خبریں دنیا بھرکے ممالک اورعالمی میڈیا کی حیرانیوں کا سبب بنی ہوئی ہیں۔عام طور پر چین بہت محتاط  انداز میں بغیرکسی ٹکراوٗ کے اپنے مفادات اور معاشی استحکام کی جانب مرکوز تھا،چین براہ راست امریکہ کے ساتھ ٹکراوٗ سے گریز کرتا رہا ہے،جب امریکہ نے ایران پر پابندیاں لگائیں تو چین نے محض سفارتی انداز میں رسمی سا مذمتی بیان جاری کیا۔چین بہت ہی دانشمندانہ پالیسی پر گامزن رہا،لیکن حالیہ بھارت و چین کی لداخ لڑائی نے دنیا کو نئی صف بندیوں پر مجبور کر دیا ہے۔جب امریکہ نے اپنا وزن بھارتی پلڑے میں ڈالا تو چین نے بھی امریکی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر ایران سے نئے تجارتی و معاشی معاہدے کرلئے،ایران پہلے ہی امریکی پابندیوں کی وجہ سے عالمی تنہائی اور معاشی بد حالی کا شکار ہے،اس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے چین کے ساتھ نئے تعلقات کا آغاز کر دیا۔

نیا اتحاد،نئی امیدیں۔

Opinion | When China Met Iran
Image courtesy :nytimes.com 

تہران،بیجنگ اتحاد سے خطے میں استحکام،امن اور تجارتی سرگرمیوں کی نئی راہیں کھلی ہیں،ایران کی سی پیک منصوبے میں اگر شمولیت ہوتی ہے تو سی پیک کی کامیابی کی راہ میں حائل رکاوٹیں کم ہو جائیں گی بلکہ تعاو ن میں بدل جائیں گی۔اس سے پاکستان کو مغربی سرحد پر بھارتی مداخلت کے حوالے سے شکایات بھی ختم ہو جائیں گی۔اسطرح چین،پاکستان اور ایران کو معاشی مفادات کے حصول کے لئے مشترکہ راستے پر چلنا ہو گا۔اگر ایسا ہو گیا تو اس خطے میں امن و ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔نئی امیدیں،نئے مستقبل کی راہیں کھول دیں گی۔ 

نیااتحاد،نئے خدشات۔،

The US – Iran kerfuffle and Indian foreign policy | ORF
Iran is going against the interests of US & India 
Image courtesy: www.orfonline.org

بیجنگ،تہران تعلقات جہاں نئی اُمیدوں کا پیغام ہیں وہیں نئے خدشات بھی ان امیدوں کے سائے بن کر خطے میں داخل ہو گئے ہیں۔کیونکہ ان تعلقات نے امریکہ اور بھارت کے خطے میں مفادات کو براہ راست چیلنج کر دیا ہے۔ایران نے بھارت کو چاہ بہار بندگاہ  اور ریلوے لائن کے منصوبے سے الگ کر دیا ہے،ایران بھارت سے امید کرتا تھا کہ وہ امریکی وعالمی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارتی و معاشی تعلقات قائم رکھے گا،لیکن بھارت نے واضح انکار تو نہ کیا لیکن عملی طور پر تعلقات کو سست روی کا شکار کر دیا،جس سے ایران نے تاثر لیا کہ بھارت کو ایران میں جاری ترقیاتی معاشی منصوبوں سے زیادہ پاکستان کے اندر مداخلت اور جاسوسی میں دلچسپی ہے،اور خاموشی سے منصوبوں کی فنڈنگ روک کر امریکہ کو راضی کر رہا ہے۔اسی طرح چین نے بھی محسوس کیا کہ امریکہ لداخ تنازع میں بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرکے بھارت میں چین کی تجارتی و معاشی سرگرمیاں محدود کر چاہتا ہے تو چین نے بھی اپنی نئی تجارتی راہیں ایرانمیں ڈھونڈنے کی کوشش کر دی،اسطرح ایک نیا معاہدہ ایران اور چین میں طے پا گیا۔جس سے عالمی میڈیا اور امریکہ میں اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔اب اگر امریکہ اور چین کے درمیان بھارت اور ایران کے حوالے سے اضطرابی کیفیت کسی مہم جوئی اور عملی محاذ آرائی کیطرف بڑھتی ہے تو پورے خطے کومشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔امریکہ اگر اس اتحاد کو ناکام یا کمزور کرنا چاہتا ہے تو اسے ایران کو اپنے قریب کرنا ہو گا،ایران کی پابندیاں ختم کرنا ہو نگی،یا پھر چین کے ساتھ مذاکرات کرنا ہو نگے جس کے امکانات کم ہیں۔جس کی وجہ سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی اور نئے خدشات کے اژدھے منہ کھولے بربادیوں اور جنگوں کے منتظر ہو نگے۔
اسلئے بیجنگ، تہران تعاون اور معاہدوں پر جشن منانے کی ابھی ضرورت نہیں،تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھوکے مصداق انتظار کرو کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

پیر، 20 جولائی، 2020

Pakistan Steel mills; Privatization/Restoration through Russian support

اسٹیل ملز بحالی یا نجکاری۔

سجاد وریاہ ۔ ۔ ۔ گمان

No photo description available.
Pakistan Steel Mills 
Image Courtesy : Pakistan Steel Mills Facebook page

آج کے بلاگ میں پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کے حوالے سے بات ہو گی،روس کی پیشکش  اور اس کے معاشی اور سیاسی اثرات کا احاطہ کیا جائے گا۔حکومت کی ہچکچاہٹ پر بات ہو گی اور یہ بھی زیر بحث ہو گا کہ پاکستان کی اس خطے میں پوزیشن کیسے بہتر ہو جائے گی

پس منظر
بحالی کی پیشکش۔
حکومت پاکستان کی ہچکچاہٹ
حتمی رائے

پس منظر

Image may contain: one or more people, people standing and outdoor, text that says "SITE FOR KARACHI STEEL MILL"
  Image Courtesy :Facebook Pakistan Steel Mills Karachi '
Site for Pakistan steel mills
 
پاکستان اسٹیل ملز منصوبہ ستر کی دہائی میں روس کے تعاون سے شروع کیا گیاجو 1985ء میں مکمل ہوا۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا اور آخری منصوبہ تھا جو خیر سگالی کی بنیاد پر لگایا گیا،کسی مالی منفعت کے بغیر روس نے مالی اور تیکنیکی معاونت کے ذریعے پاکستا ن اسٹیل ملز کا منصوبہ مکمل کیا تھا۔یہ بہت کامیاب اور منافع بخش منصوبہ تھا۔لیکن بعد میں پاکستان میں حکومتوں کی نا اہلی اور کرپشن نے اسٹیل ملز کو سفید ہاتھی بنا دیا،جو اربوں کھا جاتا ہے۔حکومتیں اس سے جان چھڑانے کے لئے نجکاری کے اعلان کرتی رہی ہیں لیکن عوامی دباو کے سبب پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔وزیر اعظم عمران خان بھی اداروں کی نجکاری پر تنقید کرتے رہے ہیں،لیکن اب ان کی حکومت اور وزیر، نجکاری کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔نجکاری یا بحالی اگر قومی مفاد میں ہو،اسٹیل ملز کو اگر چند سالوں پبلک اینڈ پرائیویٹ اشتراک سے چلانے کا منصوبہ ہو،حکومت پاکستان کو اس کی ذمہ داری لینا ہو گی اور اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا،ایسا نہیں کہ نجکاری کے نام پر اس کی بندر بانٹ شروع کی جائے۔
Image may contain: outdoor
Pakistan Steel Mills
Image Courtesy : Pakistan steel Mills Facebook page 

بحالی کی پیشکش۔


پاکستان اسٹیل ملز کے قیام میں تعاون کرنے والے روس نے اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے ۵ ارب امریکی ڈالرز دینے کی پیشکش کر دی ہے۔روس کے ریاستی ادارے ’انٹر راوٗ انجیئرنگ‘کے جنرل ڈائریکٹر پورے تیروف کی طرف سے حکومت پاکستان کے ایک مراسلے کے جواب میں لکھے گئے خط میں پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم حکومت پاکستان کو بخوشی مطلع کر رہے ہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کے لئے تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں،ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی،ہنر مند افراد اور وسائل موجود ہیں،اس ادارے کو ایک بڑا،جدید انڈسٹریل کمپلیکس بنایا جا سکتا ہے،تیکنیکی امداد کے ساتھ ادارے کی ایکسپورٹ فنانسنگ فنڈ میں ۵ ارب ڈالرز کی فنڈنگ بھی فراہم کرنے کو تیار ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ اسٹیل ملز کی بحالی کی غرض سے ہم فنانسنگ اور تیکنیکل معاونت کی غرض سے پاکستان میں نیا وفد بھیجنا بھی تجویز کرتے ہیں۔ہم گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ کی بنیاد پر اس وسیع منصوبے پر عملدرآمد کے امکانات دیکھنا چاہتے ہیں۔

حکومت پاکستان کی ہچکچاہٹ

PM directs to accelerate efforts for reviving Pakistan Steel Mills ...
Government of Pakistan 
Image Courtesy: Global News

روس کی جانب سے اس پیشکش کا اظہار 28اپریل 2020ء کو حکومت پاکستان کے نام لکھے گئے ایک خط میں کیا گیا۔اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان سے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔اس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت پاکستان ابھی اسٹیل ملز کی بحالی یا نجکاری کے حوالے سے گومگو کی صورتحال سے دوچار ہے۔

حتمی رائے

میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو روس کی اس پیشکش کا مثبت اور موثر جواب دینا چاہئے۔اس سے ایک تو ملک میں سرمایہ کاری بڑھے گی،روس سے تجارتی تعلقات کے نئے راست کھلیں گے،اس خطے میں پاکستان کے اثرورسوخ میں اضافہ ہو گا،پاکستان کی سیاسی اور معاشی حیثیت مضبوط ہو جائے گی۔صرف چین پر انحصار کم ہو گا،پاکستان کے خسارے والے ادارے کو اگر منافع بخش بنایا جاتا ہے تو اندرونی سطح پر ملازمتیں اور کاروبار کے مواقع بڑھیں گے۔حکومت کو اس پیشکش کا مثبت جوابدینا چاہئے۔
No photo description available.
Pakistan Steel Mills
Image Courtesy : Pakistan Steel Mills Facebook page.

اتوار، 19 جولائی، 2020

Ertugrul Ghazi "New Narrative"

ارطغرل غازی۔نیا بیانیہ

سجاد وریاہ۔۔۔گمان


وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی خصوصی دلچسپی کے باعث ترکی ڈرامہ ارطغرل غازی اُردو ڈبنگ کے ساتھ قومی تشریاتی ادارے پاکستان ٹیلیوژن پر قسط وار نشر کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم پاکستان کے وژن کو سراہتا ہوں،انہوں نے بہت مثبت سوچ کا مظاہرہ کیاہے،یہ انکے صاف دامن اور مطمئن ضمیر کی شہادت ہے۔ورنہ سابقہ دور میں کرپشن پر بنائی گئی ایک فلم ”مالک“ کو پاکستان میں ریلیز کرنے کی اجازت نہ مل سکی۔اس فلم کے پروڈیوسر عاشر عظیم اپنے فلم بنانے کے اخراجات کو چکانے کے لئے کینیڈا میں ٹرک چلا رہے ہیں۔محو حیرت ہوں کہ سابقہ حکمرانوں نے کیسے سمجھ لیا کہ کرپشن کے خلاف بننے والی فلم ’مالک‘ ان کے خلاف ہی بنی ہے،کہیں ”چور کی داڑھی میں تنکا“والی بات تو نہیں؟میں حکومت وقت سے درخواست کرتا ہوں کہ عاشر عظیم کی فلم ’مالک‘ کو ریلیز کرنے کی اجازت دی جائے۔

بمباسٹک

ارطغرل غازی ڈرامے نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی ہے،ہالی وڈ اور بالی وڈ انڈسٹری کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔امریکن میڈیا اسکو ”بمباسٹک“ کا نام دے رہا ہے۔ترک میڈیا انڈسٹری نے اپنی ٹیکنیکل،سوشل اور کثیر جہت مہارت کا ثبوت دے دیا ہے۔ارطغرل کے مصنف،پروڈیوسر اور ایکٹرز کے انتخاب نے بے مثال کام کیا ہے۔ڈرامے کی لوکیشن،لباس،خیمے،گھوڑے اور جنگی آلات نے تو دراصل صدیوں پرانے حالات آشکار کردیے ہیں۔ڈرامہ کے پس منظر کو تاریخی دکھا یا گیا ہے،یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور تخیلاتی پختگی کا اظہار ہے۔اس ڈرامہ میں رومانس،منافقت،سازشیں،لالچ،اقتدار کی جنگ اور بہادری سمیت تمام پہلووٗں کو بھر پور انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ترکوں نے اس ڈرامہ کے ذریعے دنیا کو اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلا دیا ہے۔ارطغرل غازی کی مقبولیت سے صلیبی تو پریشان ہوئے،یہ سمجھ آتی ہے لیکن ”اپنے“ بھی پریشان ہیں۔اپنوں کی پریشانی وہاں زیادہ نظر آتی ہے جہاں بادشاہتیں قائم ہیں اور وہ عالمی طاقتوں کے دم چھلے بنے ہوئے ہیں۔پاکستان میں مقامی سطح پر بھی کچھ آوازیں اس ڈرامہ کے خلاف اُٹھیں ہیں۔ان کا تنقیدی انداز میں جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے،یہ خود کرپٹ ہیں اور کئی این جی اوز کے نمک خوار ہیں۔کئی فکری طورپرکرپٹ ہیں،انہیں بھارتی ڈرامے دکھانے پر اعتراض نہیں لیکن ارطغرل غازی دکھانے پر پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے آئین کی خلاف فرضی ہو رہی ہے کیا؟کوئی ایسا قانون بنا ہوا ہے جس میں بھارتی ڈرامے دکھانا تو جائز ہے لیکن ترکی ڈرامے دکھانا جائز نہیں؟یہ ڈرامہ کیا اثرات مرتب کر رہا ہے؟اس سے فکری اور ذہنی سمندر میں سوچوں کی موجوں میں کیا طوفان بپا ہونے والا ہے؟

تجزیہ

آئیے ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔میں ڈرامہ ایکسپرٹ تو نہیں لیکن میری رائے آزاد اور تجزیہ،مشاہدے کی بنیاد پر ہے۔میری نظر میں اس ڈرامے کے اثرات کثیر الجہتی ہیں۔کئی بوگس اور نیچ بیانیوں کی شکست کا پیغام ہے۔جب اپنے ڈراموں میں لچرپن اور بے حیائی کو دکھانے پر سوال اُٹھتا تو جواب دیا جاتا کہ جو بِکتا ہے وہی دِکھتا ہے۔کیا کریں لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔اس ڈرامے کی مقبولیت نے اس بیانیے کومسترد کر دیا ہے۔لوگ اچھا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب اچھا میسر نہیں ہو گا تو عوام پھر دستیاب مواد دیکھنے پر ہی مجبور ہو نگے۔ہمارا ڈرامہ کیا دکھا رہا ہے؟ ساس بہو کے جھگڑے،خاندانی سازشیں،بہو اور سسر کے تعلقات،بھارتی ڈرامے بھی معاشقوں کی تراکیب اور خاندانی منافرت و منافقت کو پروموٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ ڈرامے کسی فکری،مذہبی،تاریخی اور اخلاقی پیغام سے عاری ہوتے ہیں،صرف لچر پن اور فحاشی ہی ان کا بیانیہ تھا جو ارطغرل غازی نے اپنی بے پناہ مقبولیت کی ایک ہی ٹھوکر سے زمیں بوس کر دیا۔وہ تنظیمیں اور ادارے جو غیر ملکی فنڈنگ سے ملک میں فحاشی،غیر اخلاقی ماحول اور پست معاشرتی اقدار کو پروموٹ کر رہے تھے،میرا جسم میری مرضی،جیسا بیانیہ بنا رہے تھے۔ان کی شکست یقینی ہو چکی ہے۔اس ڈرامے نے اندرونی خفیہ نقاب پوشوں کے نقاب بھی اتار پھینکے ہیں۔اس ڈرامے نے ملکی سطح پر ڈرامہ انڈسٹری پر اخلاقی حملہ کر دیا ہے،اب ملک میں مثبت اور اخلاقی ڈرامہ سازی کا رجحان بنے گا اور ایک مقابلہ سازی کا ماحول پیدا ہو گا۔کسی بھی ڈرامے کو پابندی لگانے کی بجائے مقابلے کے میدان میں اتارنا چاہئے۔عوام اسکی مقبولیت کا خود فیصلہ کر دیں گے۔

مذہبی پہلو۔۔

ارطغرل غازی کا ایک پہلو مذہب،تاریخ اور بہادری سے جڑا ہوا ہے۔اس کا ایک پیغام معیشت سے منسلک ہے،جس میں مسلم امت کو پیغام دیا گیا ہے کہ معیشت کی کمزوری کو پاوٗں کی بیڑیاں نہ بننے دیا جائے۔اس میں ایک پیغام بہت جاندار انداز میں مسلم امہ کو دیا گیا ہے کہ صلیبی قوتیں کس طرح امت میں نفرت،تعصب اور فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کے لئے کیسے ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔صلیبی قوتوں کا مستند فارمولا صدیوں سے چلا آرہا ہے کہ دشمن کے گھر میں غدار پیدا کر کے ان کے ذریعے دشمن کو کمزور کیا جائے،یہی فارمولا ابھی تک آزمایا جا رہا ہے۔تاریخی پہلو کے حوالے سے مسلمان نوجوان تاریخ سے نابلد ہیں،ان جوانوں کو کمزور فکر دینے اور گمراہ کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر مشکوک اور فحش مواد مہیا کر دیا گیا ہے۔معیشت کے حوالے سے سرمایہ دارانہ سوچ کو پروان چڑھایا گیا ہے۔پیسہ بنانے کے طریقے،کرپشن کرکے مال بنانے کو ہی کامیابی کا معیار سمجھا جانے لگا تھا،لیکن اس ڈرامے نے نئی سوچ کو تحریک دی ہے کہ وسائل کے بغیر بھی اپنے موقف پر قائم رہا جا سکتا ہے۔نوجوان لوگ معیشت اور تاریخ کے پہلووٗں پر غور کرنے لگے ہیں۔تاریخ کے اعدادوشمار سے اکتائے ہوئے نوجوان تاریخ کے بارے میں جاننے لگے ہیں۔تحقیق کرنے لگے ہیں۔صلاح الدین ایوبی،ارطغرل اور خلافت عثمانی کے قابل فخر دور کو یاد کرنے لگے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ارطغرل غازی کی مقبولیت،مسلمان دنیا میں ایک نئی تحریک پیدا کر دی ہے۔اس ڈرامے کی جاندار پیغام رسانی نے جہاں مسلم دنیا کو تحریک دی ہے وہیں غیر مسلم دنیا میں بھی تفتیش پائی جاتی ہے،بھارت میں ڈرامے پر پابندی لگا دی گئی ہے کہ اس سے مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کو توانائی ملے گی۔یورپی دنیا بھی سمجھ رہی ہے کہ اس طرح مسلمان کہیں متحد نہ ہو جائیں۔صلیبی اور عالمی طاقتوں کے بچھائے جال کو توڑنے کی کوشش نہ کرنے لگیں۔

مسلم بیانیہ۔۔

میں سمجھتا ہوں کہ ترکی بیانیہ ہی اس وقت مسلم دنیا کا بیانیہ بن کے ابھر رہا ہے۔مسلم دنیا کے مسائل پر صرف ترکی اور ملائیشیا ہی بھر پور آواز اٹھاتے ہیں۔عرب دنیا تو دولت اور پیٹرول کو ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔دولت کی فراوانی نے عربوں کو آسانی پرست بنا دیاہے۔عرب ممالک عالمی گٹھ جوڑ کا حصہ بنے ہوئے ہیں،او آئی سی کسی بھی جگہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش توانائی بنی رہتی ہے۔
او آئی سی کی خاموشی نے مسلمان ممالک کو مجبور کیا ہے کہ وہ اس کا متبادل ڈھونڈیں۔اس کی ایک کاوش پچھلے دنوں نظر بھی آئی جب ترکی اور ملائیشیا نے ایک ایک الگ مسلم دنیا کا اکٹھ کیا۔ترکی،دنیا کے ساتھ ایک سو سالہ معاہدے میں بندھا ہوا ہے،یہ معاہدہ ۳۲۰۲ء میں ختم ہو رہا ہے،اس کے بعد ترکی دنیا کی پابندیوں سے آزاد ہو جائے گا۔اپنے اختیارات اور اپنے وسائل استعمال کر سکے گا۔میں سمجھتا ہوں کہ ترکی اس کے زشوں کو سمجھے اور مسلم دنیا کی بربادی پر غور کرے،کس طرح اقوام متحدہ کی نگرانی میں مفاد پرست مسلمانوں کو ساتھ ملا کر افغانستان، اعراق،شام،لیبیااور فلسطین کو تباہ کر دیا۔میں سمجھتا ہوں نئی دنیا اقوام متحدہ اور امریکہ کے گٹھ جوڑ کو سمجھتی ہے۔رہی سہی کسر ارطغرل غازی کے ذریعے مسلم دنیا کو پہنچے پیغام نے پوری کر دی ہے۔مسلم دنیا ایک نیا بیانیہ لے کر اٹھے گی اور ترکی اس کی قیادت کرے گا۔بعد کے اپنے کردار کو دیکھتے ہوئے تیاری کر رہا ہے۔ترکی نے اس ڈرامے کے ذریعے دراصل پیغام دیا ہے کہ مسلم دنیا بیدار ہو جائے،متحد ہو جائے،صلیبی سازشوں سے محفوظ ہو سکے۔

جمعہ، 17 جولائی، 2020

1st step towards Diamer- Bhasha Dam

بھاشا ڈیم،پہلا قدم۔

سجاد وریاہ۔۔گمان۔

پس منظر

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھاشا ڈیم کا افتتاح کر دیا ہے،اس ڈیم کا پہلی بار افتتاح میاں نواز شریف نے 1998ء میں پہلی بار کیا تھا،اس کے بعد ہر حکومت وہاں پر لگی افتتاحی تختی بدلتی رہی لیکن عملی کام کسی نے بھی شروع نہ کراوایا۔سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس بار بھاشا ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ تکمیل تک پہنچ پائے گا؟کیا موجودہ حکومت بھی اسکو ماضی کی حکومتوں کی طرح محض سیاسی تشہیرکے لئے استعمال کرے گی یا عملی اقدامات بھی اُٹھائے گی؟میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی حکومت اس منصوبے کو پوری سنجیدگی سے پایا تکمیل تک پہنچائے گی،اسکی کئی وجوہات اور محرکات ہیں جن کی بنیاد پر ہم تجزیہ کر سکتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کیوں اور کس طرح ماضی کی حکومتوں کی نسبت زیادہ اخلاص اور سنجیدگی سے ملک کے لئے کام کرنے میں سنجیدہ ہے۔

سیاسی کوتاہی

پہلی وجہ عمران خان خود ہیں،کیونکہ ان کا مشن اور ایجنڈا پاکستان کی ترقی اور استحکام ہے،ذاتی مفاد،اقرباء پروری اور سیاسی گٹھ جوڑکبھی انکی مجبوری نہیں بن سکیں گے۔عمران خان کے منصوبوں میں آپ کو ایسے منصوبے نظر آئیں گے جن سے عوام اور پاکستان کا مفاد وابستہ ہے۔احساس پروگرام،پناہ گاہیں،نیا پاکستان ہاوٗسنگ اسکیم،گھر بنانے کے لئے بینکوں سے قرضے کی سہولت ایسے اقدامات ہیں جن سے عوام کا مفاد جُڑا ہے۔اس میں کِک بیکس اور کمِشن کھابے ملنے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔دوسری وجہ عمران خان کا کرپشن اور کرپٹ لوگوں کا محاسبہ کرنا ہے،پاکستان کو روشن خیال،مضبوط اور ترقی یافتہ بنانا انکا مشن ہے۔
تیسری وجہ بھاری قرضوں سے سستی شہرت کے لئے غیر ضروری منصوبوں کا شوکیس سجانا ان کی ترجیح نہیں ہے۔انکا ایجنڈا بنیادی اصلاحات اور عوامی ترجیحات ہیں۔بھاشا ڈیم کی تعمیر بھی توانائی کے شعبے میں ان بنیادی اصلاحات کی جانب پہلاقدم ہے۔پہلا قدم اسلئے لکھاکہ توانائی کے شعبے میں ابھی بہت کام ہونا باقی ہے،بھاشا ڈیم ابھی آغاز ہے۔ توانائی کے شعبے کو سابقہ حکومتوں نے کرپشن اور ناجائز کاروبار کا ذریعہ بنایا۔بھاشا ڈیم پر تختیاں لگتی رہیں اور تھرمل پاور کے نجی بجلی گھروں کے ذریعے مہنگی بجلی بیچ کر عوام کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔کالا باغ ڈیم کو بھی متنازعہ بنایا گیا،کئی مقامی اور لسانی سیاستدانوں نے اپنی سیاسی د کان چمکانے کے لئے قومی مفاد کو نقصان پہنچایا۔کالاباغ ڈیم منصوبہ ایک بہترین،قابل عمل اور سستا منصوبہ ہوگا،تمام تر ماہرین،انجینئرزاور آبی سائنسدان متفق ہیں کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر پاکستان کی رگوں میں جمتی خشکی کو شادابی میں بدلنے کا سبب بن جائے گا۔لیکن ہمارے حکمرانوں نے اپنی معیشت اپنے کاروبار مضبوط کر لئے لیکن پاکستان کے اداروں کو بربادی اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا۔

افادیت

15 جولائی کو دیا مر بھاشا ڈیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ پچاس پہلے بنایا گیا،لیکن سابقہ حکومتوں نے تیل سے بجلی پیدا کرنے کے فیصلے کئے،ملکی معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا،تربیلا اور منگلا ڈیم کی تعمیر سے سستی بجلی پیدا ہوئی،جس سے صنعتوں کوفروغ ملا،پانی کا ذخیرہ بڑھا جس سے ملکی زراعت کو بھر پور فائدہ پہنچا،ان منصوبوں نے ملکی معیشت کو مضبوط بنایا،لوگوں کو نوکریاں ملیں۔اسی طرح دیا مر بھاشا ڈیم کے منصوبے کی تعمیرات کے آغاز سے ہی سیمنٹ،اسٹیل اور دیگر تعمیراتی شعبوں کو فائدہ پہنچے گا،16ہزار نوکریاں پیدا ہونگی،64لاکھ ایکڑ فٹ پانی کے ذخیرے سے12لاکھ ایکڑ زرعی علاقہ سیراب ہو گا۔اس منصوبے سے

بدھ، 15 جولائی، 2020

Analysis on "Fawad Chaudhry interview to voice of america"


This column was published on Daily Khabrain on 4th july

Mary Trump "A villainess or a Niece"

Mary Trump: What we know about POTUS' niece behind scathing tell ...
Image Courtesy : business insider.com 

میری ٹرمپ اور ڈونلڈ ٹرمپ۔ 
سجاد وریاہ ۔ ۔ ۔ گمان

میری ٹرمپ (MaryTrump) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھتیجی ہیں۔ان کی عمر ۵۵ سال ہے اور وہ امریکی صدر کے بڑے بھائی فریڈٹرمپ جونئیر(Fred Trump Jr (کی بیٹی ہیں۔انہوں نے ایک کتاب ”Too Much and Never Enough“ کے نام سے لکھی ہے،جس میں وہ اپنے خاندانی پس منظر،خاندانی معاملات اور کاروباری معاملات کے بارے میں کھلے انداز میں لکھتی ہیں۔وہ لکھتی ہیں کہ ان کے والد فریڈ ٹرمپ جونیئر شراب کے عادی تھے،خاندان کے رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں دلچسپی نہیں لیتے تھے،جسکی وجہ سے انکے والد ٹرمپ سینیئر ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے،کہتے کہ کاروبار کو سنبھالنے کی کوشش کرو۔لیکن وہ شراب کے رسیا ہونے کی وجہ سے والد کی ڈانٹ اور تضحیک کے باوجود کاروبار میں دل نہ لگا سکے اور بالآخر کثرت شراب نوشی کے باعث دل اور گردوں کے امراض کا شکار ہو کر ۲۴ سال کی عمر میں موت کے منہ میں چلے گئے۔وہ لکھتی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ چونکہ اس وقت چھوٹا تھا،وہ اپنے بڑے بھائی کی والد کے ہاتھوں تضحیک کو دیکھتا تھا،اس نے یہ سبق سیکھ لیا کہ کاروبار کو سنبھالنا ہے ایسی تضحیک برداشت نہیں کرنی،کچھ بھی کرنا پڑے،اخلاقی،غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کرنا پڑیں،پیسہ بنانا ہے،طاقت حاصل کرنی ہے۔وہ مزیدلکھتی ہے کہ ٹرمپ کیلئے’دھوکہ دہی‘ غیر اخلاقی نہیں بلکہ ”cheating is a way of life“ ہے۔امریکی صدر کی بھتیجی ہونے کے ناتے انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی معلومات بھی نیویارک ٹائمز کے ساتھ شیئر کی تھیں جو اس کتاب میں بھی شائع کی گئی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب امریکی صدر کی اخلاقیات اور ساکھ کو بھر پور نقصان پہنچائے گی کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کتاب کی اشاعت کو رکوانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہوا تھا،جو عدالت نے مسترد کردیا ہے۔اب یہ کتاب معمول کے مطابق ۸۲ جولائی کو”سائمن اور شُسٹر پبلشرز“شائع کریں گے۔

Five shocking passages in Mary Trump's tell-all book - BBC News
Image Courtesy : bbc.com
Who is Mary Trump? Donald's niece writing a book about the US ...
Image Coutesy: standard.co.uk
   
میری ٹرمپ نے اس کتاب میں اپنے چچا ڈونلڈ ٹرمپ کی اخلاقی ساکھ کا جنازہ نکال دیا ہے،میری ٹرمپ لکھتی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک فراڈ،انا پرست اور بد اخلاق شخص ہے۔عورتوں سے ملنے کا شوقین لیکن جو عورت ملنے سے انکار کرے اسکو موٹی،بھدی اور بدصورت کہہ کر اس کی توہین کرکے اپنی انا کی تسکین کرتا ہے۔میری ٹرمپ نے لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک دھوکے باز شخص ہے،اس نے مجھے یعنی ”میری ٹرمپ“ کو کہا کہ گھوسٹ رائٹر کے طور ایک کتاب لکھو،وہ کہتی ہیں جب میں نے لکھی تو مجھے بغیر معاوضے کے فارغ کر دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی اخلاقی گراوٹ کا ذکر اس طرح کیا کہ میرے جسم پر نامناسب تبصرہ کر دیا۔وہ میرے چچا ہیں لیکن مجھے میرے جسم کے بارے میں کچھ تجاویز دینا شروع ہوگئے۔
The Trump family siblings
میں اس کتاب کے لیک شدہ مواد کے ذریعے سامنے آنے والی معلومات پر ٹرمپ کی شخصیت اور کردار پر حیران نہیں ہوا بلکہ مجھے اپنے ذاتی تجزیہ پر مزید یقین ہو گیا،کیونکہ میری رائے میں ٹرمپ ایک حواس باختہ،انا پرست اور تیز مزاج شخصیت ہیں۔میں ان کے ذاتی کردار پر کبھی بات نہیں کرتا تھالیکن سیاسی حوالوں سے ان کی کہہ مکرنیوں،دھمکیوں اور بدزبانی کا حوالہ بھی دیتا رہا ہوں اور میں اس چیز کا مشاہدہ کر چکا ہوں کہ ٹرمپ ایک بلیک میلر کے طور پر نظر آیا،جب اس نے اقتدار سنبھالتے ہی سعودی عرب،پاکستان اور ایران کے بارے میں دھمکیآمیز بیانات دینا شروع کر دیے۔پھر جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ٹرمپ کے داماد جیرڈ کُشنر ان کو ڈیل کر لیا،معاملات سیٹل کر لیے تو یہی ٹرمپ،سعودی عرب پہنچا،وہاں سعودی قیادت کے ساتھ تلوار رقص کرتا نظر آیا۔سعودی شہزادے نے اسکو دولت کے ترازو میں تول دیا۔پھر یہی ٹرمپ سعودی عرب اور ولی عہد کے گُن گانے لگا۔یہ عمل سپر پاور کے صدر کی معاشی اخلاقیات کا پتہ دیتا ہے۔بہر حال میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مفادات کی سیاست اوردھندے میں اخلاقی اقدار ڈھونڈنا بہت مشکل ہو تا ہے،لیکن میری ٹرمپ نے تو اپنی کتاب میں اپنے چچا ڈونلڈ ٹرمپ کو بری طرح ایکسپوز کر دیا ہے۔

Video Of My Views On "Kashmir Martyr's Day"

یوم شہداء کشمیر پر میرا اظہار خیال۔
سجاد وریاہ ۔ ۔ ۔ ۔  گمان

13 جولائی 2020ء کی شام سفارت خانہ پاکستان ’ریاض‘میں شہداء کشمیر کی یاد میں ایک آن لائن تقریب کا انعقاد کیا گیا،جس میں سفیر پاکستان جناب راجہ علی اعجاز صاحب شریک تھے،سفیر صاحب نے خطاب کیا اور کشمیر یوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا،پاکستان کمیونٹی کی محترم شخصیات نے بھی شرکت فرمائی،کئی محترم شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔اس پُروقار تقریب میں مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی،میرے خیالات کو سننے کے لئے نیچے دی گئی ویڈیو کو کلک کیجیے۔اپنی رائے کا اظہار فرمائیں۔بہت مشکور ہونگا،

  










منگل، 14 جولائی، 2020

13th July "Kashmir Martyrs' Day"

جولائی،یوم شہداء کشمیر
سجاد وریاہ۔۔۔۔گمان
                 
                                                               
                              
Image Courtesy:https://twitter.com/RizwanC0/status/1282571931955290113



















13جولائی 2020ء کی شام ۵ بجے سفارتخانہ پاکستان ریاض نے یوم شہداء کشمیر کی آن لائن تقریب کا انعقاد کیا۔اس تقریب کے انعقاد کا اہتمام کرنے پر سفیر پاکستان راجہ علی اعجاز،پریس قونصلر ڈاکٹر مدثر چیمہ اور انکی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے،ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے شرکت کا موقع فراہم کیا۔اس تقریب میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان،صحافی خواتین و حضرات اور پاکستانی کمیونٹی کے معتبر و محترم اراکین نے بھی شرکت کی۔






اس تقریب کا آغاز تلاوت ِ کلام پاک سے ہوا،ابتدائیہ کے طور سفیر پاکستان نے شُرکاء کو خوش آمدید کہا اور شکریہ ادا کیا۔اس کے بعد سفیر پاکستان نے13جولائی 1931ء کو سرینگر جیل کے سامنے پیش آنے والا واقعہ کا پس منظر پیش کیا۔یہ تاریخی واقعہ بیان کیا جس میں ایک اذان کی تکمیل کے لئے ۲۲ کشمیری مسلمان جوانوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ایک جوان نے اذان شروع کی اسکو ڈوگرہ راج کی پولیس نے شہید کردیا،دوسرے جوان نے آگے بڑھکر وہیں سے اذان شروع کر دی،اسکو شہید کیا گیا تو تیسرے جوان نے اذان شروع کر دی اسطرح ۲۲ جوانوں نے اذان کی تکمیل کی خاطر اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ اس واقعے کو بجا طور پر ”ایک اذان،بائیس موذن“ کے عنوان سے ایک کہانی کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے۔



اتوار، 12 جولائی، 2020

laddakh dispute (indo-china tension )

لداخ تنازعہ اور پاکستان

سجاد وریاہ ......... گمان۔

Chinese troops on Ladakh border move into India, beat Indian soldiers


محترم قارئین! آج آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں،پھر موضوع کی طرف آتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ایک’چائے والا‘ہوٹلوں میں کام کرتے کرتے بہت چالاک اور بے خوف بن گیا۔چائے خانے میں کام کرتے ہوئے چار لوگوں سے تعلقات بھی بن گئے، چار پیسے بھی بن گئے، اسکی مستی تو اپنی حدوں کو پار کرنے لگی۔شریف اور کمزور لوگوں سے شرارتیں اور اٹکھیلیاں کرنا اس کے مزاج اور نفسیاتی تسکین کا سبب بن گیا،شریف لوگ اپنی شرافت اور کمزوری کے سبب درگزر کرتے اور اس کی شرارتوں کا جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کرلیتے،اس بے عزت و بے ضمیرکے ساتھ اُلجھ کر کیوں اپنی عزت خراب کرنی ہے۔باعزت،روادار معاشروں میں شریفوں کی یہی روایت ہوتی ہے کہ کسی بھی کم ظرف سے الجھنے سے گریز کرتے ہیں۔اس رویے سے ’چائے والے‘ کا حوصلہ بڑھا۔ایک دن اس نے اپنے پڑوس کے ایک ”چوہدری“ کے ساتھ شرارت کرنے کی جسارت کر لی۔چوہدری کی زمین میں گھس کر چند درخت کاٹ لئے۔’چوہدری‘ نے اس ”چائے والے“ کو ایک چپت لگائی،اس کا ایک ساتھی پکڑا اس کو fantasticچائے پلائی اور پھر چھوڑ دیا،ایک بار پھر اپنے روایتی وقار کا مظاہرہ کیا،لیکن اپنے تجربے اور دانش کی بنیاد پر چائے والے کو اس کے انجام تک پہنچانے کا مختلف راستہ اختیار کیا۔اس نے چائے والے کو پاس بلایا،اسکی بہادری کی داد دی،دس روپے کا نوٹ بھی دیا،کہا تم بہت بہادر ہو۔اس ”چوہدری“ نے سوچا اگر میں نے اس ”چائے والے“ کی گستاخی پر سبق سکھانے کے لئے سخت ایکشن لیا تو ساتھ والے دیہاتوں کے لوگ کہیں گے یار،یہ تو بے وقوف تھا،تم ہی دانش اور عقل کا مظاہرہ کرتے۔اس لئے اس نے اپنی عزت و وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے الٹا اس کو دس روپے کا نوٹ بھی تھما دیا۔چوہدری کو کسی نے اس عمل کی وجہ پوچھی؟’چوہدری‘ نے کہا اگر اس کو سخت سزا دیتا،تو کہا جاتا کہ میں نے زیادتی کی ہے،اس لئے میں نے اسکو ”ہلا شیری“ دی ہے یہ اپنی شرارتوں کا سلسلہ جاری رکھے گا اور کسی ”طاقتور“ سے مار کھائے گا،کوئی بولے گا بھی نہیں۔پھر ایسا ہی ہوا کہ ایک دن اس نے اپنے علاقے کے تھانیدار سے پنگا لے لیا۔ اس کے ساتھیوں نے تھانیدار کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی۔تھانیدار نے پکڑ لیا،گردن سے دبوچ لیا،چائے والے کے ساتھیوں کی دھنائی کی،کئی مار دیے،کئی لا پتہ ہو گئے۔اب منظر قابل ِ دید ہے،چائے والا معافیاں مانگ رہا ہے۔اب پٹائی پر خاموشی اختیار کیے بیٹھا ہے۔تھانیدار لیکن نہیں مان رہا،پچھلا حساب بھی مانگ رہا ہے،تھانیدار نے کہا ہے جو تم نے دوسرے شریف لوگوں کو زچ کیا تھا ان کا بھی حساب برابر کرنا پڑے گا۔تم اگر مذاکرات میں کامیابی چاہتے ہو تو خطے میں امن کی بحالی کے لئے مطلوبہ اقدامات کرنا پڑیں گے۔اب دیکھو چائے والا کس طرح اپنے منہ پر ملی ناکامی و ذلت کی کالک کو دھونے کی کوشش کرتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ اس کہانی کے کرداروں کو آپ بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔لیکن آسانی کی خاطر میں ان کرداروں کے نام بھی بتا دیتا ہوں۔معروف چائے والا ”مودی“۔کمزور شریف پڑوسی،نیپال،بھوٹان،بنگلہ دیش،مقبوضہ کشمیر۔ پڑوس کے چوہدری سے مراد”پاکستان“ اب تھانیدار کو تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے،جی جناب ”عوامی جمہوریہ چین“۔جس نے اس وقت مودی کی گردن لداخ میں دبوچ رکھی ہے اور چائے والا اب شور بھی نہیں مچا رہا بلکہ اندر کھاتے پاوٗں پکڑ رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نے اس معاملے میں کمال دانشمندی اورصبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے چائے والے کی خود پٹائی کرنے کی بجائے اسکو شاباش دیتے ہوئے تھانے دار کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔جہاں طاقت بھی ہے قانون بھی اور عالمی سطح پر اسکا اپنا مضبوط موقف بھی۔

قارئین محترم!جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس وقت لداخ کے محاذ پر چین اور بھارت کے درمیان چپقلش چل رہی ہے۔اس مقام پر بھارت کو ذلت و رسوائی کا سامنا ہے،بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے کارندے کے طور اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا،گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر مسلمانوں کے قتل عام کو پوری دنیا دیکھ چکی ہے،بھارت کے اندر مکمل طور پر جھنڈے گاڑنے کے بعد اب مودی حکومت سرحدوں پر پہنچ چکی ہے۔پہلے پاکستان سے چھیڑ چھاڑ کی اور رُسوائی سمیٹی،اب چین کے ساتھ پنگا لے بیٹھی ہے۔اس کے پیچھے امریکہ کی شہہ اس طرح شامل ہے کہ بھارت نے جتنے بھی مظالم کیے،امریکہ اور عالمی برادری خاموش رہی۔بلکہ امریکہ اس خطے میں بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کے خواب دیکھنے لگا تھا۔جس میں بری طرح ناکامی کا سامنا ہے۔بھارت نے ۵ اگست کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر دی،اسکو باقاعدہ اپنا حصہ بنا لیا۔جس پر کشمیر ی عوام،پاکستان اور چین کو شدید تشوش لا حق تھی اور احتجاج بھی کرتے رہے۔دنیا کی نظر میں اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کی روشنی میں کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں۔بھارت اور چین لداخ کے مقام پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔چین اور بھارت ۲۶۹۱ء میں ایک بڑی جنگ بھی لڑ چکے ہیں،اس جنگ میں بھارت کو شکست ہوئی اور چین نے اکسائے چن کے علاقے پر قبضہ بھی کر لیا۔اب چین جو کہ اکسائے چِن پر بیٹھا تھا اور انڈیا لداخ پر قابض تھا۔انڈیا نے لداخ کے علاقے میں سڑکیں تعمیر کر لیں،باقاعدہ آمدورفت کی آسانی بنانے کے بعد اپنی فوجی چھاوٗنی قائم کررہا تھا،جس سے اسکے عزائم کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ وہ مستقبل میں کیا ارادے رکھتا تھا؟اس عمل سے انڈیا لداخ کے مقام پر اپنی فوجی طاقت سے چین کیساتھ سر حد کو عالمی سرحد ڈیکلیئر کر کے مقبوضہ کشمیر کو مستقل طور پر اپنا حصہ بنانے کا پلان ترتیب دے چکا تھا۔لیکن چین نے اس گیم پلان کو بروقت اور سنجیدہ لیتے ہوئے بہت مناسب ردعمل دیا۔چین نے بھارت کی ترتیب دی ہوئی شطرنج کی چال بری طرح اُلٹ دی۔اب انڈیا نے ایک بار پھر کشمیر کو عالمی مسئلہ بنا دیا ہے،جس میں چین بھی ایک طاقتور فریق بن کے اُبھرا ہے۔چین کی ایک طرف پاکستان سے قریبی دوستی ہے،اس وقت چین کی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری بھی ہے،سی پیک،دیامر بھاشا ڈیم اس وقت کے جدید معاہدے ہیں،جن پر چین سرمایہ کاری کر رہا ہے۔اس ضمن میں اب پاکستان کی پوزیشن بہت مضبوط ہو گئی ہے کیونکہ کشمیر میں اب چین بھی شامل ہو چکا ہے،لداخ کے علاقے پر قبضہ کر کے چین نے پاکستانی کشمیر کے علاقوں کو ایک طرح سے تحفظ فراہم کر دیا ہے۔ڈوکلام کی سرحد پر بھی چین اور بھارت گتھم گتھا ہو چکے ہیں۔بھارتی عزائم کو بروقت قابو کر لیا گیا ہے،اس وقت امریکہ بھی کھل کر اسکی مدد نہیں کرسکتا کیونکہ امریکہ میں بھی حالات سازگار نہیں ہیں۔کوروناوبا کے مسائل،اندرونی مظاہرے اور آنے والے صدارتی انتخابات امریکہ کو محدود کیے ہوئے ہیں۔میرا”گمان“ ہے کہ چین نے بھی بین السطور امریکی اور بھارتی حالات کو بہتر طور پر پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ہی بہت مناسب وقت کا انتخاب کیا ہے۔چین اب چاہتا ہے کہ کشمیر کا اب ”متنازعہ اسٹیٹس“ بحال کیا جائے،ورنہ چین بھی لداخ پر اپنا قبضہ نہیں چھوڑے گا۔یہی پاکستان کا مطالبہ ہے اور اقوام متحدہ میں پاکستان نے کئی بار آواز بھی اٹھائی۔بھارت نے ۵ اگستکے اقدام سے چین کو موقع فراہم کیا کہ وہ بھی قبضہ کر سکتا ہے،چین مناسب وقت اور مناسب جواز کا انتظار کر رہا تھا،جو اس نے بھارتی سڑکوں کی تعمیر کو بنا لیا۔اس سلسلے میں پاکستان کے دانشمندانہ کردار کو سراہنا ہو گا، اس نے جوش سے نہیں،ہوش سے کھیلا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ وہ ”چائے والا“ جو اپنی گندی ذہنیت کا اظہار بھارت میں موجود اقلیتوں پر مظالم کی شکل میں کر تا رہتا تھا،اب تھانیدار کے شکنجے میں پھنس چکا ہے۔

China Iran Relations;"A disturbance for Indian & American's interest"

ایران،چین تعلقات۔نئی امیدیں،نئے خدشات سجاد وریاہ۔۔۔۔۔۔۔گمان "China Iran Relationship" Image Courtesy:  merics.org (آج کا بلاگ چین ...