ارطغرل غازی۔نیا بیانیہ
سجاد وریاہ۔۔۔گمان
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی خصوصی دلچسپی کے باعث ترکی ڈرامہ ارطغرل غازی اُردو ڈبنگ کے ساتھ قومی تشریاتی ادارے پاکستان ٹیلیوژن پر قسط وار نشر کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم پاکستان کے وژن کو سراہتا ہوں،انہوں نے بہت مثبت سوچ کا مظاہرہ کیاہے،یہ انکے صاف دامن اور مطمئن ضمیر کی شہادت ہے۔ورنہ سابقہ دور میں کرپشن پر بنائی گئی ایک فلم ”مالک“ کو پاکستان میں ریلیز کرنے کی اجازت نہ مل سکی۔اس فلم کے پروڈیوسر عاشر عظیم اپنے فلم بنانے کے اخراجات کو چکانے کے لئے کینیڈا میں ٹرک چلا رہے ہیں۔محو حیرت ہوں کہ سابقہ حکمرانوں نے کیسے سمجھ لیا کہ کرپشن کے خلاف بننے والی فلم ’مالک‘ ان کے خلاف ہی بنی ہے،کہیں ”چور کی داڑھی میں تنکا“والی بات تو نہیں؟میں حکومت وقت سے درخواست کرتا ہوں کہ عاشر عظیم کی فلم ’مالک‘ کو ریلیز کرنے کی اجازت دی جائے۔
بمباسٹک
ارطغرل غازی ڈرامے نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی ہے،ہالی وڈ اور بالی وڈ انڈسٹری کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔امریکن میڈیا اسکو ”بمباسٹک“ کا نام دے رہا ہے۔ترک میڈیا انڈسٹری نے اپنی ٹیکنیکل،سوشل اور کثیر جہت مہارت کا ثبوت دے دیا ہے۔ارطغرل کے مصنف،پروڈیوسر اور ایکٹرز کے انتخاب نے بے مثال کام کیا ہے۔ڈرامے کی لوکیشن،لباس،خیمے،گھوڑے اور جنگی آلات نے تو دراصل صدیوں پرانے حالات آشکار کردیے ہیں۔ڈرامہ کے پس منظر کو تاریخی دکھا یا گیا ہے،یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور تخیلاتی پختگی کا اظہار ہے۔اس ڈرامہ میں رومانس،منافقت،سازشیں،لالچ،اقتدار کی جنگ اور بہادری سمیت تمام پہلووٗں کو بھر پور انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ترکوں نے اس ڈرامہ کے ذریعے دنیا کو اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلا دیا ہے۔ارطغرل غازی کی مقبولیت سے صلیبی تو پریشان ہوئے،یہ سمجھ آتی ہے لیکن ”اپنے“ بھی پریشان ہیں۔اپنوں کی پریشانی وہاں زیادہ نظر آتی ہے جہاں بادشاہتیں قائم ہیں اور وہ عالمی طاقتوں کے دم چھلے بنے ہوئے ہیں۔پاکستان میں مقامی سطح پر بھی کچھ آوازیں اس ڈرامہ کے خلاف اُٹھیں ہیں۔ان کا تنقیدی انداز میں جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے،یہ خود کرپٹ ہیں اور کئی این جی اوز کے نمک خوار ہیں۔کئی فکری طورپرکرپٹ ہیں،انہیں بھارتی ڈرامے دکھانے پر اعتراض نہیں لیکن ارطغرل غازی دکھانے پر پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے آئین کی خلاف فرضی ہو رہی ہے کیا؟کوئی ایسا قانون بنا ہوا ہے جس میں بھارتی ڈرامے دکھانا تو جائز ہے لیکن ترکی ڈرامے دکھانا جائز نہیں؟یہ ڈرامہ کیا اثرات مرتب کر رہا ہے؟اس سے فکری اور ذہنی سمندر میں سوچوں کی موجوں میں کیا طوفان بپا ہونے والا ہے؟
تجزیہ
آئیے ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔میں ڈرامہ ایکسپرٹ تو نہیں لیکن میری رائے آزاد اور تجزیہ،مشاہدے کی بنیاد پر ہے۔میری نظر میں اس ڈرامے کے اثرات کثیر الجہتی ہیں۔کئی بوگس اور نیچ بیانیوں کی شکست کا پیغام ہے۔جب اپنے ڈراموں میں لچرپن اور بے حیائی کو دکھانے پر سوال اُٹھتا تو جواب دیا جاتا کہ جو بِکتا ہے وہی دِکھتا ہے۔کیا کریں لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔اس ڈرامے کی مقبولیت نے اس بیانیے کومسترد کر دیا ہے۔لوگ اچھا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب اچھا میسر نہیں ہو گا تو عوام پھر دستیاب مواد دیکھنے پر ہی مجبور ہو نگے۔ہمارا ڈرامہ کیا دکھا رہا ہے؟ ساس بہو کے جھگڑے،خاندانی سازشیں،بہو اور سسر کے تعلقات،بھارتی ڈرامے بھی معاشقوں کی تراکیب اور خاندانی منافرت و منافقت کو پروموٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ ڈرامے کسی فکری،مذہبی،تاریخی اور اخلاقی پیغام سے عاری ہوتے ہیں،صرف لچر پن اور فحاشی ہی ان کا بیانیہ تھا جو ارطغرل غازی نے اپنی بے پناہ مقبولیت کی ایک ہی ٹھوکر سے زمیں بوس کر دیا۔وہ تنظیمیں اور ادارے جو غیر ملکی فنڈنگ سے ملک میں فحاشی،غیر اخلاقی ماحول اور پست معاشرتی اقدار کو پروموٹ کر رہے تھے،میرا جسم میری مرضی،جیسا بیانیہ بنا رہے تھے۔ان کی شکست یقینی ہو چکی ہے۔اس ڈرامے نے اندرونی خفیہ نقاب پوشوں کے نقاب بھی اتار پھینکے ہیں۔اس ڈرامے نے ملکی سطح پر ڈرامہ انڈسٹری پر اخلاقی حملہ کر دیا ہے،اب ملک میں مثبت اور اخلاقی ڈرامہ سازی کا رجحان بنے گا اور ایک مقابلہ سازی کا ماحول پیدا ہو گا۔کسی بھی ڈرامے کو پابندی لگانے کی بجائے مقابلے کے میدان میں اتارنا چاہئے۔عوام اسکی مقبولیت کا خود فیصلہ کر دیں گے۔
مذہبی پہلو۔۔
ارطغرل غازی کا ایک پہلو مذہب،تاریخ اور بہادری سے جڑا ہوا ہے۔اس کا ایک پیغام معیشت سے منسلک ہے،جس میں مسلم امت کو پیغام دیا گیا ہے کہ معیشت کی کمزوری کو پاوٗں کی بیڑیاں نہ بننے دیا جائے۔اس میں ایک پیغام بہت جاندار انداز میں مسلم امہ کو دیا گیا ہے کہ صلیبی قوتیں کس طرح امت میں نفرت،تعصب اور فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کے لئے کیسے ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔صلیبی قوتوں کا مستند فارمولا صدیوں سے چلا آرہا ہے کہ دشمن کے گھر میں غدار پیدا کر کے ان کے ذریعے دشمن کو کمزور کیا جائے،یہی فارمولا ابھی تک آزمایا جا رہا ہے۔تاریخی پہلو کے حوالے سے مسلمان نوجوان تاریخ سے نابلد ہیں،ان جوانوں کو کمزور فکر دینے اور گمراہ کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر مشکوک اور فحش مواد مہیا کر دیا گیا ہے۔معیشت کے حوالے سے سرمایہ دارانہ سوچ کو پروان چڑھایا گیا ہے۔پیسہ بنانے کے طریقے،کرپشن کرکے مال بنانے کو ہی کامیابی کا معیار سمجھا جانے لگا تھا،لیکن اس ڈرامے نے نئی سوچ کو تحریک دی ہے کہ وسائل کے بغیر بھی اپنے موقف پر قائم رہا جا سکتا ہے۔نوجوان لوگ معیشت اور تاریخ کے پہلووٗں پر غور کرنے لگے ہیں۔تاریخ کے اعدادوشمار سے اکتائے ہوئے نوجوان تاریخ کے بارے میں جاننے لگے ہیں۔تحقیق کرنے لگے ہیں۔صلاح الدین ایوبی،ارطغرل اور خلافت عثمانی کے قابل فخر دور کو یاد کرنے لگے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ارطغرل غازی کی مقبولیت،مسلمان دنیا میں ایک نئی تحریک پیدا کر دی ہے۔اس ڈرامے کی جاندار پیغام رسانی نے جہاں مسلم دنیا کو تحریک دی ہے وہیں غیر مسلم دنیا میں بھی تفتیش پائی جاتی ہے،بھارت میں ڈرامے پر پابندی لگا دی گئی ہے کہ اس سے مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کو توانائی ملے گی۔یورپی دنیا بھی سمجھ رہی ہے کہ اس طرح مسلمان کہیں متحد نہ ہو جائیں۔صلیبی اور عالمی طاقتوں کے بچھائے جال کو توڑنے کی کوشش نہ کرنے لگیں۔
مسلم بیانیہ۔۔
میں سمجھتا ہوں کہ ترکی بیانیہ ہی اس وقت مسلم دنیا کا بیانیہ بن کے ابھر رہا ہے۔مسلم دنیا کے مسائل پر صرف ترکی اور ملائیشیا ہی بھر پور آواز اٹھاتے ہیں۔عرب دنیا تو دولت اور پیٹرول کو ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔دولت کی فراوانی نے عربوں کو آسانی پرست بنا دیاہے۔عرب ممالک عالمی گٹھ جوڑ کا حصہ بنے ہوئے ہیں،او آئی سی کسی بھی جگہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش توانائی بنی رہتی ہے۔
او آئی سی کی خاموشی نے مسلمان ممالک کو مجبور کیا ہے کہ وہ اس کا متبادل ڈھونڈیں۔اس کی ایک کاوش پچھلے دنوں نظر بھی آئی جب ترکی اور ملائیشیا نے ایک ایک الگ مسلم دنیا کا اکٹھ کیا۔ترکی،دنیا کے ساتھ ایک سو سالہ معاہدے میں بندھا ہوا ہے،یہ معاہدہ ۳۲۰۲ء میں ختم ہو رہا ہے،اس کے بعد ترکی دنیا کی پابندیوں سے آزاد ہو جائے گا۔اپنے اختیارات اور اپنے وسائل استعمال کر سکے گا۔میں سمجھتا ہوں کہ ترکی اس کے زشوں کو سمجھے اور مسلم دنیا کی بربادی پر غور کرے،کس طرح اقوام متحدہ کی نگرانی میں مفاد پرست مسلمانوں کو ساتھ ملا کر افغانستان، اعراق،شام،لیبیااور فلسطین کو تباہ کر دیا۔میں سمجھتا ہوں نئی دنیا اقوام متحدہ اور امریکہ کے گٹھ جوڑ کو سمجھتی ہے۔رہی سہی کسر ارطغرل غازی کے ذریعے مسلم دنیا کو پہنچے پیغام نے پوری کر دی ہے۔مسلم دنیا ایک نیا بیانیہ لے کر اٹھے گی اور ترکی اس کی قیادت کرے گا۔بعد کے اپنے کردار کو دیکھتے ہوئے تیاری کر رہا ہے۔ترکی نے اس ڈرامے کے ذریعے دراصل پیغام دیا ہے کہ مسلم دنیا بیدار ہو جائے،متحد ہو جائے،صلیبی سازشوں سے محفوظ ہو سکے۔
great analysis sir
جواب دیںحذف کریںGood job bhai g
حذف کریں