ایران،چین تعلقات۔نئی امیدیں،نئے خدشات
سجاد وریاہ۔۔۔۔۔۔۔گمان
"China Iran Relationship" Image Courtesy: merics.org |
(آج کا بلاگ چین اور ایران بڑھتی قربتوں اور نئے تجارتی اور معاشی تعلقات کے حوالے سے ہے۔اس بلاگ میں اس اتحاد کے فوائد اور خدشات کے حوالے سے تجزیہ کیا گیا ہے،ممکنات اور نا ممکنات پر بات کی گئی ہے۔ملاحظہ فرمائیں)
پس منظر
ایران اور چین کی قربتوں اور تعاون کی خبریں دنیا بھرکے ممالک اورعالمی میڈیا کی حیرانیوں کا سبب بنی ہوئی ہیں۔عام طور پر چین بہت محتاط انداز میں بغیرکسی ٹکراوٗ کے اپنے مفادات اور معاشی استحکام کی جانب مرکوز تھا،چین براہ راست امریکہ کے ساتھ ٹکراوٗ سے گریز کرتا رہا ہے،جب امریکہ نے ایران پر پابندیاں لگائیں تو چین نے محض سفارتی انداز میں رسمی سا مذمتی بیان جاری کیا۔چین بہت ہی دانشمندانہ پالیسی پر گامزن رہا،لیکن حالیہ بھارت و چین کی لداخ لڑائی نے دنیا کو نئی صف بندیوں پر مجبور کر دیا ہے۔جب امریکہ نے اپنا وزن بھارتی پلڑے میں ڈالا تو چین نے بھی امریکی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر ایران سے نئے تجارتی و معاشی معاہدے کرلئے،ایران پہلے ہی امریکی پابندیوں کی وجہ سے عالمی تنہائی اور معاشی بد حالی کا شکار ہے،اس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے چین کے ساتھ نئے تعلقات کا آغاز کر دیا۔
نیا اتحاد،نئی امیدیں۔
Image courtesy :nytimes.com |
تہران،بیجنگ اتحاد سے خطے میں استحکام،امن اور تجارتی سرگرمیوں کی نئی راہیں کھلی ہیں،ایران کی سی پیک منصوبے میں اگر شمولیت ہوتی ہے تو سی پیک کی کامیابی کی راہ میں حائل رکاوٹیں کم ہو جائیں گی بلکہ تعاو ن میں بدل جائیں گی۔اس سے پاکستان کو مغربی سرحد پر بھارتی مداخلت کے حوالے سے شکایات بھی ختم ہو جائیں گی۔اسطرح چین،پاکستان اور ایران کو معاشی مفادات کے حصول کے لئے مشترکہ راستے پر چلنا ہو گا۔اگر ایسا ہو گیا تو اس خطے میں امن و ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔نئی امیدیں،نئے مستقبل کی راہیں کھول دیں گی۔
نیااتحاد،نئے خدشات۔،
Iran is going against the interests of US & India Image courtesy: www.orfonline.org |
بیجنگ،تہران تعلقات جہاں نئی اُمیدوں کا پیغام ہیں وہیں نئے خدشات بھی ان امیدوں کے سائے بن کر خطے میں داخل ہو گئے ہیں۔کیونکہ ان تعلقات نے امریکہ اور بھارت کے خطے میں مفادات کو براہ راست چیلنج کر دیا ہے۔ایران نے بھارت کو چاہ بہار بندگاہ اور ریلوے لائن کے منصوبے سے الگ کر دیا ہے،ایران بھارت سے امید کرتا تھا کہ وہ امریکی وعالمی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارتی و معاشی تعلقات قائم رکھے گا،لیکن بھارت نے واضح انکار تو نہ کیا لیکن عملی طور پر تعلقات کو سست روی کا شکار کر دیا،جس سے ایران نے تاثر لیا کہ بھارت کو ایران میں جاری ترقیاتی معاشی منصوبوں سے زیادہ پاکستان کے اندر مداخلت اور جاسوسی میں دلچسپی ہے،اور خاموشی سے منصوبوں کی فنڈنگ روک کر امریکہ کو راضی کر رہا ہے۔اسی طرح چین نے بھی محسوس کیا کہ امریکہ لداخ تنازع میں بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرکے بھارت میں چین کی تجارتی و معاشی سرگرمیاں محدود کر چاہتا ہے تو چین نے بھی اپنی نئی تجارتی راہیں ایرانمیں ڈھونڈنے کی کوشش کر دی،اسطرح ایک نیا معاہدہ ایران اور چین میں طے پا گیا۔جس سے عالمی میڈیا اور امریکہ میں اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔اب اگر امریکہ اور چین کے درمیان بھارت اور ایران کے حوالے سے اضطرابی کیفیت کسی مہم جوئی اور عملی محاذ آرائی کیطرف بڑھتی ہے تو پورے خطے کومشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔امریکہ اگر اس اتحاد کو ناکام یا کمزور کرنا چاہتا ہے تو اسے ایران کو اپنے قریب کرنا ہو گا،ایران کی پابندیاں ختم کرنا ہو نگی،یا پھر چین کے ساتھ مذاکرات کرنا ہو نگے جس کے امکانات کم ہیں۔جس کی وجہ سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی اور نئے خدشات کے اژدھے منہ کھولے بربادیوں اور جنگوں کے منتظر ہو نگے۔
اسلئے بیجنگ، تہران تعاون اور معاہدوں پر جشن منانے کی ابھی ضرورت نہیں،تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھوکے مصداق انتظار کرو کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں