اتوار، 12 جولائی، 2020

laddakh dispute (indo-china tension )

لداخ تنازعہ اور پاکستان

سجاد وریاہ ......... گمان۔

Chinese troops on Ladakh border move into India, beat Indian soldiers


محترم قارئین! آج آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں،پھر موضوع کی طرف آتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ایک’چائے والا‘ہوٹلوں میں کام کرتے کرتے بہت چالاک اور بے خوف بن گیا۔چائے خانے میں کام کرتے ہوئے چار لوگوں سے تعلقات بھی بن گئے، چار پیسے بھی بن گئے، اسکی مستی تو اپنی حدوں کو پار کرنے لگی۔شریف اور کمزور لوگوں سے شرارتیں اور اٹکھیلیاں کرنا اس کے مزاج اور نفسیاتی تسکین کا سبب بن گیا،شریف لوگ اپنی شرافت اور کمزوری کے سبب درگزر کرتے اور اس کی شرارتوں کا جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کرلیتے،اس بے عزت و بے ضمیرکے ساتھ اُلجھ کر کیوں اپنی عزت خراب کرنی ہے۔باعزت،روادار معاشروں میں شریفوں کی یہی روایت ہوتی ہے کہ کسی بھی کم ظرف سے الجھنے سے گریز کرتے ہیں۔اس رویے سے ’چائے والے‘ کا حوصلہ بڑھا۔ایک دن اس نے اپنے پڑوس کے ایک ”چوہدری“ کے ساتھ شرارت کرنے کی جسارت کر لی۔چوہدری کی زمین میں گھس کر چند درخت کاٹ لئے۔’چوہدری‘ نے اس ”چائے والے“ کو ایک چپت لگائی،اس کا ایک ساتھی پکڑا اس کو fantasticچائے پلائی اور پھر چھوڑ دیا،ایک بار پھر اپنے روایتی وقار کا مظاہرہ کیا،لیکن اپنے تجربے اور دانش کی بنیاد پر چائے والے کو اس کے انجام تک پہنچانے کا مختلف راستہ اختیار کیا۔اس نے چائے والے کو پاس بلایا،اسکی بہادری کی داد دی،دس روپے کا نوٹ بھی دیا،کہا تم بہت بہادر ہو۔اس ”چوہدری“ نے سوچا اگر میں نے اس ”چائے والے“ کی گستاخی پر سبق سکھانے کے لئے سخت ایکشن لیا تو ساتھ والے دیہاتوں کے لوگ کہیں گے یار،یہ تو بے وقوف تھا،تم ہی دانش اور عقل کا مظاہرہ کرتے۔اس لئے اس نے اپنی عزت و وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے الٹا اس کو دس روپے کا نوٹ بھی تھما دیا۔چوہدری کو کسی نے اس عمل کی وجہ پوچھی؟’چوہدری‘ نے کہا اگر اس کو سخت سزا دیتا،تو کہا جاتا کہ میں نے زیادتی کی ہے،اس لئے میں نے اسکو ”ہلا شیری“ دی ہے یہ اپنی شرارتوں کا سلسلہ جاری رکھے گا اور کسی ”طاقتور“ سے مار کھائے گا،کوئی بولے گا بھی نہیں۔پھر ایسا ہی ہوا کہ ایک دن اس نے اپنے علاقے کے تھانیدار سے پنگا لے لیا۔ اس کے ساتھیوں نے تھانیدار کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی۔تھانیدار نے پکڑ لیا،گردن سے دبوچ لیا،چائے والے کے ساتھیوں کی دھنائی کی،کئی مار دیے،کئی لا پتہ ہو گئے۔اب منظر قابل ِ دید ہے،چائے والا معافیاں مانگ رہا ہے۔اب پٹائی پر خاموشی اختیار کیے بیٹھا ہے۔تھانیدار لیکن نہیں مان رہا،پچھلا حساب بھی مانگ رہا ہے،تھانیدار نے کہا ہے جو تم نے دوسرے شریف لوگوں کو زچ کیا تھا ان کا بھی حساب برابر کرنا پڑے گا۔تم اگر مذاکرات میں کامیابی چاہتے ہو تو خطے میں امن کی بحالی کے لئے مطلوبہ اقدامات کرنا پڑیں گے۔اب دیکھو چائے والا کس طرح اپنے منہ پر ملی ناکامی و ذلت کی کالک کو دھونے کی کوشش کرتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ اس کہانی کے کرداروں کو آپ بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔لیکن آسانی کی خاطر میں ان کرداروں کے نام بھی بتا دیتا ہوں۔معروف چائے والا ”مودی“۔کمزور شریف پڑوسی،نیپال،بھوٹان،بنگلہ دیش،مقبوضہ کشمیر۔ پڑوس کے چوہدری سے مراد”پاکستان“ اب تھانیدار کو تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے،جی جناب ”عوامی جمہوریہ چین“۔جس نے اس وقت مودی کی گردن لداخ میں دبوچ رکھی ہے اور چائے والا اب شور بھی نہیں مچا رہا بلکہ اندر کھاتے پاوٗں پکڑ رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نے اس معاملے میں کمال دانشمندی اورصبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے چائے والے کی خود پٹائی کرنے کی بجائے اسکو شاباش دیتے ہوئے تھانے دار کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔جہاں طاقت بھی ہے قانون بھی اور عالمی سطح پر اسکا اپنا مضبوط موقف بھی۔

قارئین محترم!جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس وقت لداخ کے محاذ پر چین اور بھارت کے درمیان چپقلش چل رہی ہے۔اس مقام پر بھارت کو ذلت و رسوائی کا سامنا ہے،بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے کارندے کے طور اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا،گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر مسلمانوں کے قتل عام کو پوری دنیا دیکھ چکی ہے،بھارت کے اندر مکمل طور پر جھنڈے گاڑنے کے بعد اب مودی حکومت سرحدوں پر پہنچ چکی ہے۔پہلے پاکستان سے چھیڑ چھاڑ کی اور رُسوائی سمیٹی،اب چین کے ساتھ پنگا لے بیٹھی ہے۔اس کے پیچھے امریکہ کی شہہ اس طرح شامل ہے کہ بھارت نے جتنے بھی مظالم کیے،امریکہ اور عالمی برادری خاموش رہی۔بلکہ امریکہ اس خطے میں بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کے خواب دیکھنے لگا تھا۔جس میں بری طرح ناکامی کا سامنا ہے۔بھارت نے ۵ اگست کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر دی،اسکو باقاعدہ اپنا حصہ بنا لیا۔جس پر کشمیر ی عوام،پاکستان اور چین کو شدید تشوش لا حق تھی اور احتجاج بھی کرتے رہے۔دنیا کی نظر میں اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کی روشنی میں کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں۔بھارت اور چین لداخ کے مقام پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔چین اور بھارت ۲۶۹۱ء میں ایک بڑی جنگ بھی لڑ چکے ہیں،اس جنگ میں بھارت کو شکست ہوئی اور چین نے اکسائے چن کے علاقے پر قبضہ بھی کر لیا۔اب چین جو کہ اکسائے چِن پر بیٹھا تھا اور انڈیا لداخ پر قابض تھا۔انڈیا نے لداخ کے علاقے میں سڑکیں تعمیر کر لیں،باقاعدہ آمدورفت کی آسانی بنانے کے بعد اپنی فوجی چھاوٗنی قائم کررہا تھا،جس سے اسکے عزائم کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ وہ مستقبل میں کیا ارادے رکھتا تھا؟اس عمل سے انڈیا لداخ کے مقام پر اپنی فوجی طاقت سے چین کیساتھ سر حد کو عالمی سرحد ڈیکلیئر کر کے مقبوضہ کشمیر کو مستقل طور پر اپنا حصہ بنانے کا پلان ترتیب دے چکا تھا۔لیکن چین نے اس گیم پلان کو بروقت اور سنجیدہ لیتے ہوئے بہت مناسب ردعمل دیا۔چین نے بھارت کی ترتیب دی ہوئی شطرنج کی چال بری طرح اُلٹ دی۔اب انڈیا نے ایک بار پھر کشمیر کو عالمی مسئلہ بنا دیا ہے،جس میں چین بھی ایک طاقتور فریق بن کے اُبھرا ہے۔چین کی ایک طرف پاکستان سے قریبی دوستی ہے،اس وقت چین کی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری بھی ہے،سی پیک،دیامر بھاشا ڈیم اس وقت کے جدید معاہدے ہیں،جن پر چین سرمایہ کاری کر رہا ہے۔اس ضمن میں اب پاکستان کی پوزیشن بہت مضبوط ہو گئی ہے کیونکہ کشمیر میں اب چین بھی شامل ہو چکا ہے،لداخ کے علاقے پر قبضہ کر کے چین نے پاکستانی کشمیر کے علاقوں کو ایک طرح سے تحفظ فراہم کر دیا ہے۔ڈوکلام کی سرحد پر بھی چین اور بھارت گتھم گتھا ہو چکے ہیں۔بھارتی عزائم کو بروقت قابو کر لیا گیا ہے،اس وقت امریکہ بھی کھل کر اسکی مدد نہیں کرسکتا کیونکہ امریکہ میں بھی حالات سازگار نہیں ہیں۔کوروناوبا کے مسائل،اندرونی مظاہرے اور آنے والے صدارتی انتخابات امریکہ کو محدود کیے ہوئے ہیں۔میرا”گمان“ ہے کہ چین نے بھی بین السطور امریکی اور بھارتی حالات کو بہتر طور پر پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ہی بہت مناسب وقت کا انتخاب کیا ہے۔چین اب چاہتا ہے کہ کشمیر کا اب ”متنازعہ اسٹیٹس“ بحال کیا جائے،ورنہ چین بھی لداخ پر اپنا قبضہ نہیں چھوڑے گا۔یہی پاکستان کا مطالبہ ہے اور اقوام متحدہ میں پاکستان نے کئی بار آواز بھی اٹھائی۔بھارت نے ۵ اگستکے اقدام سے چین کو موقع فراہم کیا کہ وہ بھی قبضہ کر سکتا ہے،چین مناسب وقت اور مناسب جواز کا انتظار کر رہا تھا،جو اس نے بھارتی سڑکوں کی تعمیر کو بنا لیا۔اس سلسلے میں پاکستان کے دانشمندانہ کردار کو سراہنا ہو گا، اس نے جوش سے نہیں،ہوش سے کھیلا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ وہ ”چائے والا“ جو اپنی گندی ذہنیت کا اظہار بھارت میں موجود اقلیتوں پر مظالم کی شکل میں کر تا رہتا تھا،اب تھانیدار کے شکنجے میں پھنس چکا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

China Iran Relations;"A disturbance for Indian & American's interest"

ایران،چین تعلقات۔نئی امیدیں،نئے خدشات سجاد وریاہ۔۔۔۔۔۔۔گمان "China Iran Relationship" Image Courtesy:  merics.org (آج کا بلاگ چین ...